History of Peshawer(پېښورپشاورپشور)1947
پشاور
پشاور Peshawar
| |
---|---|
صوبائی دارالحکومت | |
عرفیت: پھولوں کا شہر مردوں کا شہر ایشیا کا ایمسٹرڈیم | |
پاکستان میں مقام | |
متناسقات: 34°01′N 71°35′Eمتناسقات: 34°01′N 71°35′E | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | خیبر پختونخوا |
ضلع | ضلع پشاور |
پاکستان کی یونین کونسلیں | 92 |
حکومت | |
• قسم | میٹروپولیٹن شہر |
• میئر | ارباب عاصم |
• نائب میئر | سید قاسم علی شاہ |
• ڈپٹی کمیشنر | ثاقب رضا اسلم[1] |
• اسسٹنٹ کمشنر پشاور | محمد مغیث ثناء اللہ[2] |
رقبہ | |
• کل | 1,257 کلو میٹر2 (485 مربع میل) |
بلندی | 359 میل (1,178 فٹ) |
بلند ترین پیمائش | 450 میل (1,480 فٹ) |
آبادی (2017)[3] | |
• کل | 1,970,042 |
• درجہ | اول، خیبر پختونخوا پاکستان میں چھٹا |
• کثافت | 1,600/کلو میٹر2 (4,100/مربع میل) |
پشاور شہری ہم بستگی | |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
ٹیلی فون کوڈ | 091 |
زبانیں | ہندکو، پشتو زبان |
انسانی ترقیاتی اشاریہ | 0.55 (data for 2012–2013) [4] |
انسانی ترقیاتی اشاریہ زمرہ | اوسط |
ویب سائٹ | City District Government of Peshawar |
پشاور (پشتو: پېښور; ہندکو: پشور; انگریزی: Peshawar) پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔
پشاور پاکستان کے نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ [5] اس کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجوہات اردگرد کے دیہات اور خیبرپختونخوا کے دوسرے چھوٹے شہروں کی مقامی آبادی کا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہر کو منتقلی، تعلیم اور دیگر خدمات شامل ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں فوجی کاروائیوں اور افغان مہاجرین کی آمد سے بھی یہاں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تعلیمی ، سیاسی اور کاروباری اعتبار سے پشاور سب سے آگے ہے اور علاقے کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں طب اور تعلیم کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں میں سے کئی پشاور میں قائم ہیں۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور کی آبادی 1،970،042 ہے جو اسے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر بناتی ہے۔ [6]
اشتقاقیات[ترمیم]
ایک مفروضے کے مطابق علاقے کی ابتدائی آبادی کے وقت اس کا نام سنسکرت میں پرش پورہ (مردوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور ہو گیا۔ [7]
دوسرے مفروضے کے مطابق یہ فارسی نام پیش شہر کا بگاڑ ہے۔ [8] اکبر کے کتابیات نگار اور مورخ نے اس کے دو نام پَرَشاوَر [9] اور پشاور [10] دونوں تحریر کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نام پشاور اکبر نے خود نام دیا تھا۔ [8]
دیگر نام[ترمیم]
500 ق م میں میلٹس کے جغرافیہ دان ہیکائتس نے اس کا کسپاپوروس تحریر کیا ہے۔[11]
ابو ریحان البیرونی نے اسے پرشاور لکھا ہے۔ [11]
پروفیسر دانی کے مطابق اس کا نام پارس پور ، کشان پور، پرشاپور، باگرام اور پارو پاراستہ بھی تھا۔ [11]
تاریخ[ترمیم]
پشاور کو جنوبی ایشیاء کے چند سب سے پرانے شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 7 ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔
قدیم پشاور[ترمیم]
وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔ قدیم تعلیمی مرکز ہونے کی وجہ سے دوسری صدی قبل مسیح میں بکھشالی طرزِ تحریر پر مشتمل ایک ریاضی کلیہ (جذر معلوم کرنا) اس کے نزدیک سے برآمد ہوئی ہے۔
وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو "پشکلاوتی" کے نام سے جانا جاتا ہے جو "راماین" کے بادشاہ "بھارت" کے بیٹے "پشکل" کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام "پرش پورہ" (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیا کے توچاری قبیلے "کشان" نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارلحکومت بنایا۔
اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 1،20،000 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کئے رکھا۔
گندھارا پشاور[ترمیم]
کشان حکمران "کنیشکا" 127 عیسوی کے لگ بھگ بادشاہ بنا، نے اپنا دارلحکومت پشکلاوتی (موجودہ چارسدہ) سے منتقل کر کے پرش پورہ (موجودہ پشاور) قائم کیا۔ دوسری صدی عیسوی سے بدھ بھکشو، زرتشت، ہندو اور روحیت کے پشاور زرتشت مذہب کے کشان حکمرانوں سے مشاورت کر نے آتے رہے تھے۔ کشان حکمرانوں نے ان کی تعلیمات سے متائثر ہو کر بدھ مت قبول کر لیا اور بدھ مت کو شہر میں سرکاری درجہ مل گیا۔ حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پشاور بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز بن گیا جبکہ آبادی کی اکثریت زرتشت اور روحیت کی پیروکار رہی۔
بدھ مت کے مخلص پجاری ہونے کی حیثیت سے کنشک نے اس دور کی دنیا کی بلند ترین عمارت بنوائی جو بدھ مت کا سٹوپا تھا اور جہاں بدھ مت سے متعلق مذہبی تبرکات جمع کئے گئے تھے۔ یہ سٹوپا پرانے پشاور کے گنج دروازے کے ساتھ باہر بنا ہوا تھا۔ اس سٹوپا کے بارے قدیم ترین روایت چینی سیاح اور بھکشو فاہیان کی تحریر سے ملتی ہے جو یہاں 400 عیسوی میں آیا تھا۔ اس کے مطابق سٹوپا کی بلندی 40 چانگ سے زیادہ یعنی اندازاً 120 میٹر تھی اور اس پر ہر طرح کے قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ فاہیان کے مطابق اس نے آج تک جتنے مندر اور سٹوپا دیکھے تھے، کنشک سٹوپا ان سے کہیں زیادہ خوبصورت اور مضبوط تر تھا۔ آسمانی بجلی گرنے سے سٹوپا تباہ ہوا اور کئی بار اس کی مرمت کی گئی۔ ہیون سانگ کی 634 عیسوی میں آمد تک سٹوپا کا ذکر ملتا ہے۔ بدھا سے منسوب تبرکات جو ایک جواہرات جڑی ٹوکری میں رکھے تھے، کو 1909ء میں سٹوپا کے عین وسط میں ایک زیر زمین کمرے سے کھدائی کر کے ڈاکٹر ڈی بی سپونر نے نکالا۔
مسلم حملہ آور[ترمیم]
خراسان پر عرب قبضے کے بعد پشتون اسلام لانے لگے۔ 1001 عیسوی میں ترک بادشاہ محمود غزنوی نے اپنی غزنوی سلطنت کو افغانستان سے آگے برصغیر تک پھیلایا۔ 997ء میں سبگتگین کی وفات کے بعد خراساں کا گورنر ان کا بیٹا محمود بنا جس نے بعد ازاں دولت سامانیہ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سلطنت قائم کی اور 999 عیسوی میں سلطان کا لقب اختیار کیا۔
ابتدائی دور میں پشاور کے علاقے میں کئی خونریز جنگیں ہوئیں جن کا آغاز محمود اور ہندو بادشاہ جے پال کے درمیان میں جنگ سے ہوا۔ جے پال کی مستقل خواہش تھی کہ سبگتگین کے ہاتھوں چھینی گئی سلطنت کو واپس لیا جائے۔ جے پال کی مدد کے لیے کچھ پٹھان تو تھے لیکن ان کی حمایت زیادہ دیر تک نہ چل سکی۔
نومبر 1001ء میں جے پال کی شروع کی ہوئی جنگ میں اسے شکست ہوئی اور اس سمیت اس کی فوج قیدی بنی۔ آزاد ہونے پر اس نے اپنے بیٹے آنند پال کو بادشاہ بنایا۔ محمود نے پٹھانوں کو سزا دی اور مسلمان ہونے کے بعد وہ محمود کے ساتھ وفادار ہو گئے۔
پشتون، مغل اور مرہٹہ قبضے[ترمیم]
افغان (پشتون) شہنشاہ شیر شاہ سوری نے پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی اور اس نے اپنی دہلی سے کابل کی شاہراہ درہ خیبر کے راستے سولہویں صدی میں بنوائی اور بعد میں مغلوں نے پشاور پرقبضہ کر لیا۔ مغل بادشاہت کا بانی بابر جب موجودہ دور کے ازبکستان سے پشاور پہنچا اور بگرام کا شہر آباد کرایا اور 1530ء میں قلعہ دوبارہ بنوایا۔ بابر کے پوتے اکبر نے اس کا نام بدل کر پشاوا کر دیا جس کا مطلب ہے "سرحد پر واقع جگہ"۔ دنیا بھر سے مسلمان صوفیا، مشائخ، استاد، معمار، سائنس دان، تاجر، سپاہی، افسرِ شاہی، ٹیکنو کریٹ وغیرہ غول در غول جنوبی ایشیا کی اسلامی سلطنت کو آن پہنچے۔ مغربی ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری اور باغات اگانے سے پشاور شہر "پھولوں کا شہر" بن گیا۔
خوشحال خان خٹک جو مشہور افغان/پشتون شاعر تھے، پشاور کے نزدیک پیدا ہوئے اور ان کی زندگی پشاور سے وابستہ رہی۔ افغان آزادی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ مغل بادشاہوں بالخصوص اورنگزیب کے لیے مستقل سر درد بنے رہے۔ اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا ۔
1747ء میں لوئیہ جرگہ نے پشاور کو افغان درانی سلطنت کا حصہ بنا دیا جس پر اس وقت احمد شاہ درانی کی حکومت تھی۔ 1776ء میں احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارلحکومت بنایا اور بالا حصار کا قلعہ افغان بادشاہوں کی قیام گاہ بن گیا۔ درانی دورِ حکومت میں پشتونوں نے جنوبی ایشیا پر حملوں میں حصہ لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر سکھوں کے قبضے تک پشاور درانیوں کے سرمائی دارلحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
پشاور پر مختصر عرصے کے لیے مرہٹوں کا قبضہ بھی رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انہوں نے 8 مئی 1758ء کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759ء میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
سکھ حکمرانی[ترمیم]
1812ء میں پشاور پر افغانستان کا قبضہ ہوا لیکن جلد ہی اس پر سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ برطانوی مہم جو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ایجنٹ ولیم مور کرافٹ کی سربراہی میں ایک مہم پہنچی تو اسے کابل کی حکومت اور لاہور کے سکھ حکمرانوں سے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ مور کرافٹ کو پشاور کی گورنر کا عہدہ بھی پیش کیا گیا اور علاقے کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری پیش کی گئی جسے اس نے رد کر کے اپنا سفر پشاوری فوجیوں کے ساتھ ہندوکش کا سفر جاری رکھا اور کابل جا پہنچا۔ 1818ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہو گیا۔ مغل دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کر دیے گئے۔ سکھوں کے نمائندے کے طور پر اطالوی باشندے پاولو آویتابائل نے حکمرانی کی اور اس کے دور کو پھانسیوں اور سولیوں کا دور کہا جاتا ہے۔ پشاور کی مشہور مسجد مہابت خان جو 1630ء میں بنائی گئی تھی، کو سکھوں کے دور میں تباہ کر دیا گیا۔
سکھ مت کو قائم رکھنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ بنوائے۔ اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہوگئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔
1835ء میں دوست محمد خان کو شہر پر قبضے میں اس وقت ناکامی ہوئی جب اس کی فوج نے دل خالصہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوست محمد خان کا بیٹا محمد اکبر خان 1837ء کی جمرود کی جنگ میں پشاور پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا لیکن پھر اسے ناکامی ہوئی۔ سکھوں کی حکمرانی 1849ء میں اس وقت ختم ہوئی جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ جیت لی۔
پشاور پر برطانوی راج[ترمیم]
1849ء میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعد پشاور انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1857ء کی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد مقامی فوجیوں کے 4000 افراد کو بغیر خون بہائے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس طرح 1857ء کی بغاوت کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے خون خرابے سے پشاور بچ نکلا۔ مقامی سرداروں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا۔ شہر کے باہر کے پہاڑوں کے نقشے 1893ء میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے بنائے جو اس وقت برٹش انڈیا حکومت کا خارجہ سیکریٹری تھا۔ اس نے افغان حکمران عبدالرحمان خان کے ساتھ مل کر افغان سرحد کا نقشہ بنایا۔
1868ء میں شہر کے مغرب میں برطانیہ نے ایک بڑی چھاؤنی قائم کی اور پشاور کو اپنا سرحدی مرکزی مقام بنا دیا۔ مزید برآں پشاور میں انہوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جن میں شہر کو بذریعہ ریل ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور مسجد مہابت خان کی تعمیر و تزئین شامل ہے۔ برطانیوں نے کننگہیم کلاک ٹاور بھی بنایا جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریباًت کے سلسلے میں بنایا گیا تھا۔ 1906ء میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں وکٹوریہ ہال بنایا جہاں اب پشاور کا عجائب گھر قائم ہے۔ مغربی تعلیم دینے کے لیے برطانیہ نے ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 1901ء اور 1913ء میں بالترتیب بنائے اور بہت سارے اسکولز بھی بنائے جن کو اینجلیکن چرچ چلاتا ہے۔
پشاور پشتون اور ہندکو مشاہرین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندکو بولنے والے افراد برطانوی راج میں یہاں کی ثقافت پر غالب اثر رکھتے تھے۔
پشاور میں ہی غفار خان کی چلائی ہوئی عدم تشدد کی تحریک سامنے آئی جو موہن داس گاندھی سے متائثر تھی۔ اپریل 1930ء میں مقامی افراد کے بڑے گروہ نے قصہ خوانی بازار میں پرامن مظاہرہ کیا کہ ان کے خلاف برطانیہ نے امتیازی قوانین بنائے ہیں۔ برطانوی افواج کی فائرنگ سے 400 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے اور ان 400 شہیدوں کی یاد میں ایک یادگار بھی یہاں موجود ہے جسے یادگار شہیداں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جدید پشاور[ترمیم]
1947ء میں پشاور ڈومنین پاکستان کا حصہ بن گیا کہ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دی۔ اگرچہ اکثریت اس الحاق کے حق میں تھی لیکن خان عبدالغفار خان کی قیادت میں ایک چھوٹے گروہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کنفیڈریشن زیادہ بہتر ہوتی اور انہوں نے متحدہ ہندوستان کو بہتر سمجھا۔ تاہم عوام کی بھاری اکثریت متحدہ ہندوستان اور خود کو ہندوستانی کہلوانے کے سخت مخالف تھے۔ انتہائی قلیل تعداد پشاور کو افغانستان میں شامل دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی خیال بعد ازاں پشتونستان کی بنیاد بنا جو پاکستان اور افغانستان، دونوں سے آزاد ریاست ہوتی۔
نئے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے افغانستان نے دو رخہ حکمت عملی تیار کی تاکہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو عدم استحکام کا شکار بنا سکے۔ ایک طرف تو اس نے پاکستان کے مخالف بھارت سے دوستی کی تو دوسری طرف روس کے ساتھ بھی دوستی شروع کر دی جو بالآخر افغانستان پر روسی حملے پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف اس نے 1960ء کی دہائی میں اپنی مرضی کے سیاست دانوں کو معاشی امداد مہیا کی۔ 1960ء کی دہائی سے 1970ء کی دہائی تک اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ رہا تاہم بعد میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کو قبول کر لیا، تاہم پنجابی طبقہ اشرافیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ پشتونوں کو پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاست اور قومی افسرِ شاہی میں بھی آنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں ایوب خان جو ایک پشتون تھے، پاکستان کے صدر بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کا حصہ بننے کو قبول کر لیا اور ایک انتہائی چھوٹی اور غیر اہم سیاسی جماعت پختونخوا ملت پارٹی نے پاکستان اور افغانستان سے علیحدگی کی باتیں جاری رکھیں۔ اگرچہ علیحدگی کی تحریک بہت کمزور تھی لیکن پاک افغان تعلقات میں اس کی وجہ سے مستقل دراڑ پڑ گئی۔ آج پشاور کے پشتون خود کو فخریہ پاکستان کے رکھوالے اور پاکستانی کہلاتے ہیں۔
1950ء کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012ء میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ "وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیئے جائیں گے"۔
شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر برے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضا مزید آلودہ ہو رہی ہے۔
گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔
1980ء میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ مجاہدین گروپوں کے سیاسی مرکز اور افغان مہاجر کیمپوں کا مرکز رہا۔ اکثر روسی جاسوس ان گروہوں میں گھس کر تشدد کو ہوا دیتے رہے اور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدانِ جنگ پشاور میں بن گیا۔
1988ء کے انتخابات کے دوران میں تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر رجسٹر شدہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بہت سارے نسلی پشتون افغان آسانی سے پشاور میں مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
2012ء میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان میں رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔ طالبان شدت پسندوں کا نشانہ ہونے کی وجہ سے یہاں پشتون تعمیرات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ پشتون شاعر رحمان بابا کے مزار کو 2009ء میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
جغرافیہ[ترمیم]
خیبر پختونخوا کی طرح درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع پشاور سطح مرتفع ایران کا حصہ ہے۔
حالیہ جغرافیائی دوروں میں وادئ پشاور میں سلٹ، ریت اور پتھر جمع ہوتے رہے ہیں۔ دریائے کابل اور بدنی نالا کے درمیان میں سیلابی میدان ہیں جو شمال مغرب میں وارسک تک جاتے ہیں۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہوئے دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں دو زیادہ بڑی ہیں۔ مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی دریا کہلاتی ہے جو چارسدہ کو جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔
موسم[ترمیم]
پشاور کا موسم نیم بنجر ہے اور گرمیاں بہت سخت جبکہ سردیاں نسبتاً سرد ہوتی ہیں۔ سردیوں کا موسم نومبر سے شروع ہو کر مارچ کے اواخر تک اور کبھی کبھار اپریل کے وسط تک چلا جاتا ہے۔ گرمیاں وسط مئی سے وسط ستمبر تک جاتی ہیں۔ گرمیوں میں گرم ترین مہینوں کا اوسط درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے اور کم سے کم اوسط 25 ڈگری ہے۔ سردیوں کا اوسط کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 15.35 ڈگری رہتا ہے۔ سردیوں میں اکثر یہاں درجہ حرارت 0 ڈگری کے قریب چلا جاتا ہے مگر 7 جنوری 1970 کے دن پشاور میں آج تک کی سب سے زیادہ سردی ریکارڈ کی گئی اور درجہ حرارت منفی 3.9 ڈگری تک چلا گیا۔
پشاور مون سون علاقے میں نہیں آتا تاہم بارش سردیوں اور گرمیوں میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ مغربی اثرات کی وجہ سے فروری اور اپریل میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ بارش کی مقدار فروری 2007ء میں ریکارڈ کی گئی جو 236 ملی میٹر تھی۔ گرمیوں کی سب سے زیادہ بارش جولائی 2010ء میں 402 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اسی دوران میں 29 جولائی 2010ء کو چوبیس گھنٹے میں بارش کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جو 274 ملی میٹر تھا۔ سردیوں میں ہونے والی بارش گرمیوں کی نسبت زیادہ رہتی ہے۔ 30 سال کے ریکارڈ کے مطابق سالانہ بارش کی اوسط مقدار 400 ملی میٹر ہے اور سب سے زیادہ ایک سال میں 904.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے جو 2003ء میں ہوئی تھی۔ ہوا کی رفتار دسمبر میں 5 ناٹ جبکہ جون میں 24 ناٹ تک ریکارڈ ہوئی ہے۔ جون میں ہوا میں اوسط نمی کا تناسب جون میں 46 فیصد جبکہ اگست میں 76 فیصد ہے۔ 18 جون 1995ء کو سب سے زیادہ 50 ڈگری جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 7 جنوری 1970ء میں منفی 3.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا ہے۔
▼آب ہوا معلومات برائے پشاور (1961–1990) | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہینا | جنوری | فروری | مارچ | اپریل | مئی | جون | جولائی | اگست | ستمبر | اکتوبر | نومبر | دسمبر | سال |
بلند ترین °س (°ف) | 27.0 (80.6) | 30.0 (86) | 36.0 (96.8) | 42.2 (108) | 45.2 (113.4) | 48.0 (118.4) | 46.6 (115.9) | 46.0 (114.8) | 42.0 (107.6) | 38.5 (101.3) | 35.0 (95) | 29.0 (84.2) | 48 (118.4) |
اوسط بلند °س (°ف) | 18.3 (64.9) | 19.5 (67.1) | 23.7 (74.7) | 30.0 (86) | 35.9 (96.6) | 40.4 (104.7) | 37.7 (99.9) | 35.7 (96.3) | 35.0 (95) | 31.2 (88.2) | 25.6 (78.1) | 20.1 (68.2) | 29.4 (84.9) |
یومیہ اوسط °س (°ف) | 11.2 (52.2) | 12.9 (55.2) | 17.4 (63.3) | 23.2 (73.8) | 28.6 (83.5) | 33.1 (91.6) | 32.2 (90) | 30.7 (87.3) | 28.9 (84) | 23.7 (74.7) | 17.6 (63.7) | 12.5 (54.5) | 22.7 (72.9) |
اوسط کم °س (°ف) | 4.0 (39.2) | 6.3 (43.3) | 11.2 (52.2) | 16.4 (61.5) | 21.3 (70.3) | 25.7 (78.3) | 26.6 (79.9) | 25.7 (78.3) | 22.7 (72.9) | 16.1 (61) | 7.6 (45.7) | 4.9 (40.8) | 15.9 (60.6) |
ریکارڈ کم °س (°ف) | −3.9 (25) | −1.0 (30.2) | 1.7 (35.1) | 6.7 (44.1) | 11.7 (53.1) | 13.3 (55.9) | 18.0 (64.4) | 19.4 (66.9) | 12.0 (53.6) | 8.3 (46.9) | 1.1 (34) | −1.3 (29.7) | −3.9 (25) |
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) | 26.0 (1.024) | 42.7 (1.681) | 78.4 (3.087) | 48.9 (1.925) | 27.0 (1.063) | 7.7 (0.303) | 42.3 (1.665) | 67.7 (2.665) | 17.9 (0.705) | 9.7 (0.382) | 12.3 (0.484) | 23.3 (0.917) | 403.9 (15.901) |
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات | 195.5 | 189.5 | 194.5 | 231.3 | 297.1 | 299.5 | 273.8 | 263.2 | 257.3 | 266.1 | 234.8 | 184.4 | 2,887 |
ماخذ#1: NOAA (1961-1990) [12] | |||||||||||||
ماخذ #2: PMD[13] |
آبادیات[ترمیم]
آبادی[ترمیم]
پشاور کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور 1998ء میں آبادی 982,816 تھی۔ آبادی میں اضافے کی شرح 3.29 فیصد ہےجو پاکستان کے دیگر شہروں کی اوسط سے زیادہ ہے۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور شہر کی آبادی 1,970,042 نفوس پر مشتمل ہے۔ [14]
- شہری آبادی: 51.32 فیصد ہے
- دیہاتی آبادی: 48.68 فیصد
- مرد اور عورت کا تناسب: 1.1:1
نسلی اور لسانی[ترمیم]
2002ء میں آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح کی وجہ سے آبادی 20 سال میں دو گنا ہو گئی ہے۔ ضلع پشاورشمالاً جنوباً 50 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 30 کلومیٹر ہے۔ شہر سطح سمندر سے 359 میٹر بلند ہے۔ وادئ پشاور تقریباً گول ہے اور دریائے سندھ سے خیبر کی پہاڑیوں تک پھیلی ہے۔ اس کے شمال اور شمال مشرق میں پہاڑی سلسلہ ہے جو پشاور کو وادئ سوات سے الگ کرتا ہے۔ شمال مغرب میں خیبر کے سنگلاخ پہاڑ واقع ہیں اور جنوب میں سفید کوہ کی شاخ شروع ہو جاتی ہے اور یہی شاخ پشاور کو کوہاٹ سے جدا کرتی ہے۔ کوہ لقا کی بلندی 6600 فٹ ہے اور خیبر ایجنسی میں واقع ہے جو شہر کے وسط سے 25 کلومیٹر جبکہ حیات آباد سے 15 کلومیٹر دور ہے۔
مذہب[ترمیم]
پشاور کی آبادی کا 98.5 فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے جن کی اکثریت سنی ہے۔ شیعہ بھی اہم اقلیت ہیں۔ [15] موجودہ دو رکا پشاور اگرچہ مسلمان اکثریت پر مشتمل ہے تاہم ماضی میں یہاں ہندو، سکھ، یہودی، زرتشت اور بہائی مذہب کے لوگ بھی یہاں آباد تھے۔ موجودہ دور میں سکھوں کی آبادی کے علاوہ یہاں ہندو اور مسیحی بھی آباد ہیں۔
مسیحی شہر کا دوسرا بڑا نسلی گروہ ہیں جس کے پیروکار تقرباً 20,000 کی تعداد میں ہیں، جبکہ احمدیہ برادری کے 7,000 افراد بھی پشاور میں مقیم ہیں۔ [15]
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہوگئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی۔ [16] 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔ [17][18]
1940ء کی دہائی کے اواخر تک یہاں ایک چھوٹی مگر فروغ پزیر یہودی برادری بھی موجود تھی، تاہم تقسیم ہند اور ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد وہ بھارت اور اسرائیل منتقل ہو گئے۔ [19]
افغان مہاجرین[ترمیم]
پشاور 1978ء میں افغان خانہ جنگی کے دور سے ہی افغان مہاجرین کا میزبان رہا ہے، تاہم 1979ء میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ 1980ء تک 100،000 پناہ گزینوں فی ماہ صوبہ داخل ہو رہے تھے [20] جن میں سے 25 فیصد پناہ گزینوں ضلع پشاور مقیم ہوئے۔ [20]
افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کے پشاور میں مقیم ہونے کی وجہ سے شہر کے بنیادی ڈھانچے پر زور پڑا، [21] اور شہر کی آبادیات میں بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ [21] 1988ء کے قومی انتخابات کے دوران پشاور میں ووٹ ڈالنے کے لیے تقریباً 100،000 افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر مندرج تھے۔ [22]
افغان پناہ گزینوں پر اکثر انتہاپسند اسلامی گروہوں کے خلاف پاکستان کی جنگ کے دوران ہونے والے دہشتگرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا۔ [23] 2015ء میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے لیے ایک پالیسی منظور کی، جن میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی پاکستان میں گزاری تھی۔[23] افغانستان کی حکومت نے بھی وطن واپسی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی، تاہم بہت سے مہاجرین نے پاکستان میں خود کو مندرج نہیں کروایا تھا۔ غیر مندرج افغان مہاجرین جن کے پاس رانی افغان شناختی دستاویزات بھی نہیں تھیں ان کی اب افغانستان میں کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ [24]
سیاست[ترمیم]
قومی اسمبلی پاکستان[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے قومی اسمبلی پاکستان ملاحظہ کریں۔
قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ پشاور سے قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے.
حکومت خیبر پختونخوا[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے حکومت خیبر پختونخوا ملاحظہ کریں۔
حکومت خیبر پختونخوا حکومت پاکستان کی ایک اکائی جس کی عملداری صوبہ خیبر پختونخوا میں محدود ہے۔ اس کے سرکاری دفاتر پشاور میں واقع ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام بھی ہے۔ [25]
عہدیدار[ترمیم]
- گورنر اعلی پختونخوا: مہتاب احمد خان عباسی [26]
- وزیر اعلی پختونخوا: پرویز خٹک [27]
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی ملاحظہ کریں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی پاکستان میں خیبر پختونخوا کا قانون ساز ایوان ہے۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی۔ اس ایوان کی 124 نشستیں ہیں جن میں سے 99 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 22 نشستیں خواتین اور 3 نشستیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔[28]
انتظامی تقسیم[ترمیم]
پشاور ڈویژن[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاور ڈویژن ملاحظہ کریں۔
پشاور ڈویژن پاکستان کی انتظامی تقسیم میں خیبر پختونخوا کا ایک جز ہے۔ گو کہ مقامی حکومتوں کے 2000ء میں آئی اصلاحات میں اس کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کو دو ڈویژن میں تقسیم کر دیا گیا تھا، یہ دو ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن اور پشاور ڈویژن تھے۔ 1976ء تک پشاور ڈویژن میں ہزارہ اور کوہاٹ کے اضلاع بھی شامل تھے جو بعد میں ڈویژن قرار دے دیے گئے۔
انتظامیہ[ترمیم]
پشاور ڈویژن کے تین اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔ [30]
ضلع پشاور[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے ضلع پشاور ملاحظہ کریں۔
ضلع پشاور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر پشاور ہے جو خیبر پختونخوا کا دار الحکومت ہے۔ 2017ء کے میں کی آبادی کا تخمینہ 4,269,079 ہے۔ [31] ضلع پشاور میں عمومی طور پر پشتو، ہندکو اور اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 1,257 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی کثافتِ آبادی 3,400 افراد فی مربع کلو میڑ ہے۔
ثقافت[ترمیم]
پشاور کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی ثقافت طویل عرصے تک گندھارا ثقافت، پختون ثقافت اور ہندکو ثقافت سے متائثر ہوتی آئی ہے۔ پشاور جس صوبے میں ہے، اس کی اکثریت آبادی پختون ہے جبکہ پشاور میں 1980ء کی دہائی کے اوائل تک آبادی کی اکثریت ہندکو تھی جو یہاں کے مقامی ہیں۔ پختون اور ہندکو ثقافتوں میں کافی چیزیں مماثل ہیں اور جغرافیائی اعتبار سے کچھ اختلافات بھی ہیں۔ ہندکو افراد زیادہ تر شہری جبکہ پختون افراد کی اکثریت دیہاتی پس منظر رکھتی ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ اور رہن سہن میں بھی واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔
پشاوری چپل[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاوری چپل ملاحظہ کریں۔
پشاوری چپل ایک قسم کی چپل ہے جو زیادہ تر پاکستان کے شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ چپل شلوار قمیض کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے۔ شروع میں یہ چپل چمڑے کی مددسے صرف کالے اور براؤن رنگ میں تیارکی جاتی تھی، اب یہ کئی دوسرے رنگوں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لوگ چپل سازوں سے اپنے پسندیدہ رنگ کی پشاوری چپل بنواتے ہیں۔
مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات میں بھی پشاوری چپل پہنی جاتی ہے۔ ہر تہوار اور تقریب میں اسے کافی مقبول سمجھا جاتا ہے۔ ان ڈیزائنز میں ڈبل تلوے والی پشاوری چپل تیار کی جاتی ہے۔ مختلف تہواروں کے موقع پر نئے پشاوری چپل پہنا روایت کا حصہ رہتا ہے تاہم عیدین میں اسی خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ پشاوری چپل پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی تیزی سے مقبول ہوچکی ہے [32] خاص کر نوجوانوں میں اسے جینز کے ساتھ پہننے کا رجحان بن گیا ہے۔ [33]
2014ء میں پشاوری چپل عالمی سطح پر فیشن کی ایک علامت بنی۔ برطانوی فیشن ڈیزائنر پاول سمتھ نے پشاوری چپل کی نقل کر کے چپل بنائے اور 300 پاؤنڈز (50 ہزار پاکستانی روپیہ) پر ایک جوڑہ فروخت کیا، پاول سمتھ نے لوگوں کے سامنے اسے اس انداز میں پیش کیا کہ یہ ڈیزائن اسی نے تیار کیا ہے، اس پر ایک تعداد میں لوگوں نے مختلف جگہوں پر اس کے خلاف شکایت کی کہ پاکستانی ڈیزائنرز کی محنت کو ضائع کراکر سمتھ نے فنکاروں کے اس محنت پر اپنا نام لگایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے برطانوی برینڈز مالکان اور برطانوی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ یہ چپل پاکستان کی ثقافت کا اہم جز ہے، ان کو اپنے اصلی نام سے ہی پکارا جائے اور جو لوگ فنکاروں کے محنت کو ضائع کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاراجوئی کی جائے۔ اس احتجاج کے بعد پاول سمتھ نے اپنی ویب سائٹ پر چپلوں کی ڈسکرپشن تبدیل کر کے یہ ٹیگ لگا لیا کہ "یہ چپل پشاوری چپل سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے"۔"[34][35][36][37]
پشاوری پگڑی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاوری پگڑی ملاحظہ کریں۔
پشاوری پگڑی ایک پگڑی کی قسم ہے جو تربن کے انداز میں ہوتی ہے یہ پشاور میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اسلیے نسبت سے یہ نام پڑا۔
قدیم شہر[ترمیم]
ماضی میں پشاور کے گرد دیوار بنی ہوئی تھی جس کے اب آثار ہی باقی بچ گئے ہیں۔ زیادہ تر گھر کچی اینٹوں سے بنے ہیں اور اس میں لکڑی استعمال ہوئی ہے تاکہ زلزلے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ شہر کی پرانی عمارات سیٹھی محلہ، مسجد مہابت خان، کوٹلہ محسن خان، چوک یادگار اور قصہ خوانی بازار وغیرہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلسل تعمیر و ترقی کی وجہ سے پرانی عمارات کے تحفظ کی فوری ضرورت ہے۔ پشاور کے گرد دیوار میں آٹھ دروازے تھے جہاں سے مختلف علاقوں کو راستے جاتے تھے مثلاً ھشتنگری دروازہ، یہاں سے ھثتنگر (چارسدہ) کو سڑک جاتی تھی، لاھوری دروازہ ، یہاں سے لاہور کو سڑک جاتی تھی۔ ان دروازوں کے آثار زمانے کی بے رحمی سے مٹ گئے تھے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے ان کو از سر نو علامتی طور پر بنا دیا ہے۔
قصہ خوانی بازار[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے قصہ خوانی بازار ملاحظہ کریں۔
قصہ خوانی بازار پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور کا ایک مشہور تاریخی بازار ہے۔ قصہ خوانی بازار تاریخی لحاظ سے ادبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب، اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیاں کرتے۔ یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے۔ یہاں تاجروں کے علاوہ قافلوں کا بھی پڑاؤ ہوتا اور فوجی مہمات کا آغاز اور پھر اختتام جو تفصیلاً ہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا۔ [38] یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے اور یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیاں کیا کرتے تھے۔ ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے گزئٹیر کے سیاح لوئل تھامس اور پشاور کے برطانوی کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو وسط ایشیا کا پکاڈلی قرار دیا ہے۔[39][40][41]
سیٹھی محلہ[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے سیٹھی محلہ ملاحظہ کریں۔
سیٹھی محلہ قدیم پشاور کے اندروں دیوار شہر کے مرکز میں ایک علاقہ ہے جو وسط ایشیائی طرز تعمیر کے گھروں کے لیے مشہور ہے۔ محلہ میں سیٹھی خاندان کے سات مکانات موجود ہیں جو فن کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ [42]
موسیقی[ترمیم]
افغان جنگ کی وجہ سے افغان مہاجرین پاکستان پہنچے اور پشاور میں افغان موسیقار اور فنکار بھی آن بسے۔ اس کے علاوہ پشتو موسیقی اور سینما، دری موسیقی جو تاجک افراد کی پسند ہے اور فارسی میں کتب کی چھپائی بھی پشاور میں اب جڑ پکڑ چکی ہیں۔ پشاور سے شیعہ مذہبی کتب قصہ خوانی بازار سے چھپتی ہیں۔
2002 میں متحدہ مجلس عمل کی انتخابی کامیابی کے بعد عوامی سطح پر موسیقی کی نمائش اور پبلک ٹرانسپورٹ پر موسیقی پر پابندی لگ گئی۔ تاہم زیر زمین استعمال بڑھ گیا۔ 2008 میں نسبتاً آزاد خیال عوامی نیشنل پارٹی کی جیت کے بعد ثقافتی سرگرمیوں کو جِلا ملی ہے لیکن طالبان کی وجہ سے ثقافت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔
عجائب گھر[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاور عجائب گھر ملاحظہ کریں۔
پشاور عجائب گھر پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخی شہر پشاور میں ایک عجائب گھر ہے۔ ایک کی خصوصیت گندھارا تہذیب کے نوادرات ہے۔
زبانیں[ترمیم]
شہر کی اکثر آبادی ایک یا ایک سے زیادہ زبانیں بولتی ہے:
- اردو، قومی زبان اور عام رابطہ کے لیے استعمال ہوتی ہے
- پختو، آس پاس اور افغانستان سے پختونوں کی اکثریت کی آمد کے بعد 1980 کی دہائی سے بڑی زبان بن گئی ہے
- پشاور کے مقامی لوگ جو خود کو پشوری کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ پشوری ھندکو بولتے ہیں۔
- کھو ار، چترال کے لوگ بولتے ہیں
- کوہستانی، مالا کنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے لوگ بولتے ہیں
- دری، ہزارگی، *فارسی اور تاجک، مختلف افغان مہاجرین بولتے ہیں
دیگر زبانوں میں گوجری، کشمیری، شینا، رومانی، برشسکی، واخی، بلتی، بلوچی، براہوی، سندھی اور انگریزی (سرکاری سطح پر اور سیاحت سے متعلق) بھی استعمال ہوتی ہیں۔
تحریری طور پر اردو اور انگریزی ہی پشاور میں استعمال ہوتی ہیں جبکہ پشتو اور فارسی انتہائی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔
معیشت[ترمیم]
پشاور کی معاشی اہمیت تاریخی طور پر درہ خيبر داخلے پر ہونے کی وجہ سے امتیازی حیثیت رہی ہے۔ یہ وسط ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارت کا سب سے اہم راستہ رہا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط سے پشاور کی معیشت کو ہپی راہ میں ہونے کی وجہ سے بھی بہت فائدہ ہوا۔ پشاور کی متوقع ماہانہ فی کس آمدنی اسلام آباد 117،924 اور کراچی 66،2359 کے مقابلے میں 2015ء میں 55،246 تھی۔ [43]
صنعت[ترمیم]
جمرود روڈ پر واقع پشاور کی صنعتی اسٹیٹ 868 ایکڑ پر محیط ہے جو 1960ء میں قائم کیا گیا ایک صنعتی زون ہے۔ [44] حیات آباد صنعتی اسٹیٹ پشاور کے مغرب کے مضافات میں واقع ہے جہاں 646 صنعتی یونٹس موجود ہیں۔ تاہم کئی یونٹس اب استعمال میں نہیں ہیں.[45] پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 4 خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے، سڑکوں، بجلی، گیس، پانی، اور سیکورٹی حکومت کی طرف سے فراہم کی جائے گی.[45]
روزگار[ترمیم]
شہر میں پناہ گزین افراد کی بڑی تعداد میں ہونے کے نتیجے میں، پشاور کے رہائشیوں کا صرف 12 فیصد 2012ء میں رسمی معیشت میں روزگار حاصل کر سکا۔[46] 2012ء میں تقریباً 41 فیصد باشندوں کو ذاتی خدمات میں برسر روزگار ہوئے، [46] جبکہ 2012ء میں شہر میں 55 فیصد افغان مہاجرین روزانہ اجرت حاصل کرنے والے تھے۔ [46]
نقل و حمل[ترمیم]
فضائی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا ملاحظہ کریں۔
باچا خان بین الاقوامی ہوائی اڈا یا پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ (کوڈ: PEW|OPPS) پاکستان کے صوبہ سرحد میں پشاور کے مقام پر واقع بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ پشاور شہر کے مرکز سے تقریباً 10 منٹ کی مسافت پر واقع ہے اور پاکستان میں چوتھا مصروف ترین ہوائی اڈا شمار ہوتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی غیر معمولی بات یہ ہے کہ اس کے رن وے کے ایک حصے پر ریل کی پٹری گزرتی ہے جو خیبر ٹرین سفاری کے استعمال میں ہے جو لنڈی کوتل تک سفر کرتی ہے۔
یہ ہوائی اڈا ایک لحاظ سے وادی پشاور کے مرکز میں واقع ہے۔ پشاور انٹرنیشنل ائرپورٹ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر یہ سفر تقریباً 2 گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ اس ہوائی اڈے کی تاریخی اہمیت ملک کے دوسرے ہوائی اڈوں کی نسبت ممتاز ہے۔ چونکہ پشاور صوبہ سرحد کا مرکز ہے اس لیے یہ ملک کے شمال مغربی حصے میں دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ہے جو عالمی معیار پر پورا اترتا ہے۔
ریلوے[ترمیم]
پشاور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں کراچی - پشاور مرکزی ریلوے لائن پر واقع ہے۔ یہ پشاور شہر کا مرکزی اور پاکستان ریلویز کا ایک اہم ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہاں عوام ایکسپریس، خوشحال خان خٹک ایکسپریس اور خیبر میل ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ اس اسٹیشن سے ریل گاڑیاں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں کراچی، لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، خانیوال، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، سکھر، جیکب آباد، لاڑکانہ، کوئٹہ، اور کوٹری شامل ہیں۔
جبکہ پشاور میں دوسرا ریلوے اسٹیشن پشاور شہر ریلوے اسٹیشن ہے۔
شاہراہیں[ترمیم]
پشاور تاریخی طور پر بہت اہمیت کا حامل رہا ہے جو مختلف راستوں سے وسط ایشیا، جنوبی ایشیا سے مربوط رہا ہے۔ شہر میں عمومی نقل و حمل کے لیے سڑکوں کا جال موجود ہے۔ مندرجہ ذیل بین صوبائی یا بین الاقوامی شاہراہوں کا ذکر ہے۔
گرینڈ ٹرنک روڈ[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے گرینڈ ٹرنک روڈ ملاحظہ کریں۔
گرینڈ ٹرنک روڈ یا جسے مختصرًا جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں دراصل ایشیا کی طویل ترین اور قدیم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عمر 2000 سال ہے۔ یہ شاہراہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملاتی ہے جو بنگلادیش سے شروع ہوکر بھارتی علاقوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی پنجاب پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں افغان شہر کابل تک جاتی ہے۔
شاہراہ قراقرم[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے شاہراہ قراقرم ملاحظہ کریں۔
شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔
قومی شاہراہ 55[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے قومی شاہراہ 55 ملاحظہ کریں۔
قومی شاہراہ 55 یا این-55، جسے عام طور پر انڈس ہائی وے کہا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ سندھ، پنجاب اور سرحد کو منسلک کرنے والی ایک اہم شاہراہ ہے۔ اسے دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر واقع این-5 پر دباؤ کو کم کرنے اور کراچی اور پشاور کے درمیان ایک مختصر اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس شاہراہ کی تجویز 1980ء میں دی گئی اور کام کا آغاز 1981ء میں کراچی سے ہوا اور 7 سال کے بعد پشاور میں مکمل ہوئی۔
پشاور رنگ روڈ[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاور رنگ روڈ ملاحظہ کریں۔
پشاور رنگ روڈ یا خیبر پختونخوا ہائی وے ایس-13 پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں واقع 35 کلومیٹر (22 میل) طویل ایک مداری شاہراہ ہے۔ [47]
موٹر وے[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے ایم 1 موٹروے (پاکستان) ملاحظہ کریں۔
ایم 1 موٹروے (M1) پاکستان میں موٹروے ہے جو خیبر پختونخوا اور پنجاب کو ملاتی ہے۔ یہ 155 کلومیٹر طویل ہے، 88 کلومیٹر خیبر پختونخوا میں اور 67 کلومیٹر پنجاب میں واقع ہے۔یہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک اہم رابطہ سڑک بن چکی ہے۔ یہ پاکستان موٹروے کا حصہ ہے۔[48]۔
درۂ خیبر[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے درۂ خیبر ملاحظہ کریں۔
درۂ خیبر پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر پشاور سے 33 میل طویل اونچے اونچے خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک درہ ہے۔ چوڑائی ایک جگہ صرف دس فٹ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاریخ میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے برصغیر میں شمال مغرب کی طرف سے جتنے فاتح آئے۔ اسی راستے سے آئے۔ انگریزوں نے 1879ء میں اس پر قبضہ کیا۔ درہ خیبر جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم تک چلا گیا ہے۔ جو پاک افغان سرحد کی آخری چوکی ہے۔باب خیبر اور قلعہ جمرود پاس ہی واقع ہیں۔
تعلیم[ترمیم]
پشاور میں بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں جن میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے پشاور یونیورسٹی اکتوبر 1950ء میں قائم کی۔ ایڈورڈز کالج 1900ء میں ہربرٹ ایڈورڈز نے بنایا اور اسے صوبے کا قدیم ترین کالج مانا جاتا ہے۔
ذیل میں پشاور کے سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں سے کچھ کے نام ہیں:
- اباسین یونیورسٹی
- جامعہ زرعیہ پشاور
- سٹی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی
- فرنٹیئر ویمن یونیورسٹی
- گاندھارا یونیورسٹی
- اقرا نیشنل یونیورسٹی (سابقہ پشاور یونیورسٹی آف اقرا یونیورسٹی کراچی)
- اسلامیہ کالج یونیورسٹی
- خیبر میڈیکل یونیورسٹی
- نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز, پشاور کیمپس
- پریسٹن یونیورسٹی (پاکستان)
- قرطبہ یونیورسٹی
- جامعہ سرحد
- یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور
- جامعۂ پشاور
- زرعی یونیورسٹی
- انسٹی ٹیوٹ آف مینیجمنٹ سائنسز
- ایمز یونیورسٹی آف امرجنگ سائنسز
- سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
- سیکوز یونیورسٹی آف آئی ٹی اینڈ امرجنگ سائنسز
- پریسٹن یونیورسٹی
کھیل[ترمیم]
ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور میں ٹیسٹ کرکٹ کا اسٹیڈیم ہے، دیگر اسٹیڈیموں میں پشاور کلب گراؤنڈ اور قیوم اسٹیڈیم شامل ہیں۔ پشاور کی مقامی کرکٹ ٹیم پشاور پینتھرز ہے۔ جبکہ پاکستان سپر لیگ میں پشاور کی کرکٹ ٹیم پشاور زلمی ہے۔ [49] فیلڈ ہاکی اور اسکواش بھی پشاور میں بہت مقبول ہیں۔ پشاور گالف کورس پشاور، خیبر پختونخوا، پاکستان میں ایک بڑا گالف کورس ہے۔ یہ شہر کے مرکز میں گرینڈ ٹرنک روڈ اور شامی روڈ کے ساتھ واقع ہے۔ یہ برطانوی راج کے نو آبادی دور میں تعمیر گیا۔ [50][51] موجودہ دور میں یہ پاک فضائیہ کے زیر انتظام ہے۔ [52]
پشاور زلمی[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے پشاور زلمی ملاحظہ کریں۔
پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ میں ایک پاکستانی ٹوئنٹی/20 کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور پر مبنی ہے۔ یہ ٹیم پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے قیام کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی ہیں۔ یہ ٹیم ہائیر پاکستان کی ملکیت ہے۔[53] پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ کی 2017ء کی موجودہ فاتح ہے۔ [54]
شماریات[ترمیم]
ضلع کا کُل رقبہ 1257 مربع کلوميٹر ہے۔
یہاں فی مربع کلو میٹر 2040 افراد آباد ہيں
سال 2004-05 ميں ضلع کی آبادی 2564000 تھی
دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے ۔
کُل قابِل کاشت رقبہ78930 ہيکٹر ہے
اہم شخصیات[ترمیم]
- بشیر احمد بلور، سیاست دان
- سردار عبدالرب نشتر،پہلے گورنر پنجاب، پاکستان
- غلام محمد قاصر، اردو شاعر
- ہاشم خان، سابق برٹش اوپن اسکواش فاتح
- اسماعیل گل جی، فنکار
- یونس خان، کرکٹ کھلاڑی
- جہانگیر خان، اسکواش کے سابق نمبر 1 کھلاڑی
- جنرل یحییٰ خان، صدرو چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان
- شاہد آفریدی، سابق کپتان پاکستان قومی کرکٹ ٹیم
- جان شیر خان، اسکواش کے سابق فاتح
- مارینہ خان، اداکارہ
- پطرس بخاری، اردو مزاح نگار
- رحیم اللہ یوسفزئی، صحافی
- رحمان بابا، پشتو زبان شاعر
- عمر گل، کرکٹ کھلاڑی
- یاسر حمید، کرکٹ کھلاڑی
- قمر زمان، اسکواش کھلاڑی
- مدھوبالا، بولی وڈ اداکارہ
- دلیپ کمار، بولی وڈ اداکار
- امجد خان، بولی وڈ اداکار
- آغا جی اے گل
- اسماعیل گل جی
- اقبال ظفر جھگڑا
- خاطر غزنوی شاعر
- پروفیسر پری شان خٹک معلم، ادیب
- بدرمنیر
- جھانگیر خان جانی
- حاجی محمد عدیل
- دانش اطلس خان
- سردار عبدالرب نشتر
- ضیا سرحدی
- شاہ قبول اولیاء
- عبدالوحید کاکڑ
- عمر گل
- غلام احمد بلور
- ملک راج آنند
- ونود کھنہ، بولی وڈ اداکار
- پریم ناتھ، بولی وڈ اداکار
- راج کپور، بولی وڈ اداکار
- گلالئی اسماعیل
- ہاشم خان
- ڈاکٹر ثانیہ نشتر
جڑواں شہر[ترمیم]
- ارومچی، چین[حوالہ درکار]
- مکاسر، انڈونیشیا[55]
- صنعاء، یمن (24 اگست 2011ء سے)
نگار خانہ[ترمیم]
- History of Peshawar
Ancient Peshawar[edit]
Peshawar was likely established as a village in the 5th-6th century BC[1] within the cultural sphere of eastern ancient Persia.[1] The region around Peshawar was known as Gandhara in Sanskrit, Hindko the language used by the Buddhist kingdoms which first ruled the area.[2] The Gandhara region surrounding Peshawar found mention in the Parsi Zend Avesta as Vaēkərəta, the seventh most beautiful place on earth created by Ahura Mazda. It was known as the "crown jewel" of Bactria and also held sway over Takshashila (modern Taxila).[3]The city would later be referred to by several names, including Parashawar as transcribed by Al-Masudi, Poshpura as found in a Kharosthi inscription, and Pskbvr as noted in the ancient Persian Shapur inscription. Popular theory suggests the city's name was Purushapura based on the writing of a 7th-century traveler, but the name Purushapura does not appear in any ancient literary sources.[4] Various theories have been put forth to explain the city's name, based primarily on Sanskrit or Ancient Persian names.By the 2nd century BCE, Peshawar was a center of learning, as witnessed in the Bakhshali Manuscript, used in the Bakhshali approximation was found nearby.[7]The region was annexed by the Persian Achaemenid Empire. Later, the region was invaded by Alexander the Great's army. The city passed into the rule of Alexander's successor, Seleucus I Nicator who ceded it to Chandragupta Maurya, the founder of the Maurya Empire. The inhabitants of Peshawar were mostly Hindu and Buddhist during this period.[citation needed] The fall of the Mauryans provided opportunities to the Indo-Greeks to establish their rule over the region. The Indo-Greek kings combined the Greek and Indian languages and symbols, as seen on their coins, and blended ancient Greek, Hindu and Buddhist religious practices, as seen in the archaeological remains of their cities and in the indications of their support of Buddhism, pointing to a rich fusion of Indian and Hellenistic influences.[8] The diffusion of Indo-Greek culture had consequences which are still felt today, particularly through the influence of Greco-Buddhist art.[9] The Indo-Greeks ultimately disappeared at Peshawar as a political entity around 10 CE following the invasions of the Indo-Scythians, although pockets of Greek populations probably remained for several centuries longer under the subsequent rule of the Indo-Parthians and Kushans.[10]Kushan Peshawar[edit]
The city was then conquered by the Kushan Empire. The Kushan Emperor Kanishka, who ruled from 127 CE, moved the capital from Pushkalavati (present-day Charsadda district, in the Peshawar Valley) to Gandhara (Peshawar city) in the 2nd century CE.[11] Buddhist missionaries arrived at Vedic, and animist Peshawar, seeking counsel with the Kushan rulers. Their teachings were embraced by the Kushans, who converted to Buddhism, assigning the religion with great status in the city. Following this move by the Kushans, Peshawar became a center of Buddhist learning.[12]The giant Kanishka stupa at Peshawar was built by King Kanishka to house Buddhist relics just outside the present-day Ganj Gate of the old city of Peshawar. The Kanishka stupa was said to be an imposing structure, as one traveled down from the Hindu Kush mountains onto the Gandharan plains. The earliest account of the famous building was documented by Faxian, the Chinese Buddhist pilgrim, who was also a monk, who visited the structure in 400 AD and described it as being over 40 chang in height (approximately 120 metres (390 ft)) and adorned "with all precious substances". Faxian continued: "Of all the stûpas and temples seen by the travelers, none can compare with this for beauty of form and strength."[citation needed] The stupa was eventually destroyed by lightning, but was repaired several times; it was still in existence at the time of Xuanzang's visit in 634 AD. A jeweled casket containing relics of the Gautama Buddha, and an inscription identifying Kanishka as the donor, existed at the ruined base of this giant stupa — the casket was excavated, by a team supervised by Dr D.B. Spooner in 1909, from a chamber under the very centre of the stupa's base.[13]Hindu Shahis and Muslim conquest[edit]
The Kabul Shahis ruled the Kabul Valley and Gandhara (modern-day Pakistan and Afghanistan) from the decline of the Buddhist Kushan Empire in the 3rd century to the early 9th century CE.[14] The Shahis are generally split up into two eras: the earlier Buddhist Shahis and the later Hindu Shahis, with the change-over thought to have occurred sometime around 870 CE - after which Hinduism gained primacy in the region.The kingdom was known as the Kabul Shahan or Ratbelshahan from 565 CE to 670 CE, when the capitals were located in Kapisa and Kabul, and later Udabhandapura, also known as Hund,[15] for its new capital.[16][17][18]The Hindu Shahis under Jayapala, is known for his struggles in defending his kingdom against the Ghaznavids in the modern-day eastern Afghanistan and Pakistan region. Jayapala saw a danger in the consolidation of the Ghaznavids and invaded their capital city of Ghazni both in the reign of Sebuktigin and in that of his son Mahmud, which initiated the Muslim Ghaznavid and Hindu Shahi struggles.[19] Sebuk Tigin, however, defeated him, and he was forced to pay an indemnity.[19] Jayapala defaulted on the payment and took to the battlefield once more.[19] Jayapala, however, lost control of the entire region between the Kabul Valley and Indus River.[20]After the Ghaznavid victory, the Buddhist, Hindu, and Zoroastrian natives began converting to Islam following the early annexation by the Arab Empire from Khurasan (in what is Afghanistan, Turkmenistan and northeastern Iran).[21]Before Jayapala's struggle began, he had raised a large army of Punjabi Hindus. When Jayapala went to the Punjab region, his army was raised to 100,000 horsemen and an innumerable host of foot soldiers. According to Ferishta:However, the army was hopeless in battle against the western forces, particularly against the young Mahmud of Ghazni.[20] In the year 1001, soon after Sultan Mahmud came to power and was occupied with the Qarakhanids north of the Hindu Kush, Jayapala attacked Ghazni once more and upon suffering yet another defeat by the powerful Ghaznavid forces, near present-day Peshawar. After the Battle of Peshawar, he committed suicide because his subjects thought he had brought disaster and disgrace to the Shahis.[19][20]Jayapala was succeeded by his son Anandapala,[19] who along with other succeeding generations of the Shahis took part in various unsuccessful campaigns against the advancing Ghaznavids but were unsuccessful. The Hindu rulers eventually exiled themselves to the Kashmir Siwalik Hills.[20] Mahmud punished the Pashtuns, who had sided with the Hindus, and, as they converted entirely to Islam, the Pashtuns remained loyal to their new allegiance.[23]Pashtun and Mughal rule (1451–1758)[edit]
Peshawar was a northwestern regional center of the Pashtun Lodi Empire which was founded by Bahlul Lodi in 1451 and centered at Delhi. Peshawar was also incorporated into the Mughal domains by the mid of 16th century. The founder of the Mughul dynasty that would conquer South Asia, Babur, who hailed from the area that is currently Uzbekistan, arrived in Peshawar and founded a city called Bagram, where he rebuilt a fort in 1530 AD.The Pashtun emperor Sher Shah Suri, who founded the Sur Empire centered at Delhi, turned Peshawar's renaissance into a boom when he ran his Delhi-to-Kabul Shahi Road as a northwestern extension of the Grand Trunk Road through the Khyber Pass and Peshawar in the 16th century. Later Babur's grandson, Akbar the Great, recorded the name of the city as Peshawa, meaning "The Place at the Frontier" or "Near Water"[citation needed] and expanded the bazaars and fortifications. The Muslim technocrats, bureaucrats, soldiers, traders, scientists, architects, teachers, theologians and Sufis flocked from the rest of the Muslim world to the Islamic Sultanate in South Asia, with many settling in the Peshawar region.[24]Khushal Khattak, the Pashtun warrior poet, was born near Peshawar, and his life was intimately tied to the city. As an advocate for Afghan independence, he was an implacable foe of the Mughal rulers, especially Aurangzeb.[citation needed]Maratha Peshawar (1758-1759)[edit]
The Marathas defeated the Durranis in the Battle of Peshawar in May 1758 as a part of their Northwest expansion campaign, and briefly occupied the city.[25] When Raghunathrao and Malhar Rao Holkar had left Punjab they appointed Tukoji Sindhia as their representative in this north-western province. He along with Khandoji Kadam defeated the Afghan garrison,[26] but the Marathas lost Peshawar by early 1759.Durrani Peshawar (1759–1818)[edit]
As Mughal power declined in 1747, following a loya jirga, Peshawar would join the Pashtun Durrani Empire of Ahmad Shah Durrani.[27] Peshawar was attacked and captured by the Maratha Empire of western India, which conquered Peshawar on 8 May 1758. A large force of Pashtuns under Ahmad Shah Durrani then re-conquered Peshawar in early 1759.[28] Peshawar remained under Durrani rule till the conquest by the Sikhs in 1818.In 1776, Ahmad Shah's son, Timur Shah Durrani, chose Peshawar as his winter capital[29] and the Bala Hissar Fort in Peshawar was used as the residence of Durrani kings. Pashtuns from Peshawar participated in the incursions of South Asia during the Durrani Empire. Peshawar remained the winter capital until the Sikhs of the Punjab region rose to power in the early nineteenth century.[24]Sikh conquest (1818–1849)[edit]
Until 1818, Peshawar was controlled by Afghanistan, but was invaded by the Sikh Empire of Punjab. The arrival of a party led by British explorer and former agent of the East India Company, William Moorcroft was seen as an advantage, both in dealings with Kabul and for protection against the Sikhs of Lahore. Moorcroft continued to Kabul in the company of Peshawari horses and thence to the Hindu Kush.[30] In 1818, Peshawar was captured by Maharaja Ranjit Singh and paid a nominal tribute until it was finally annexed in 1834 by the Sikhs, after which the city fell into steep decline. Many of Peshawar's famous Mosques and gardens were destroyed by the Sikhs at this time. An Italian was appointed by the Sikhs as administrator. Acting on behalf of the Sikhs, Paolo Avitabile, unleashed a reign of fear – his time in Peshawar is known as a time of "gallows and gibbets." The city's famous Mahabat Khan, built in 1630 in the Jeweler's Bazaar, was badly damaged and desecrated by the Sikh conquerors.[21]The Gurdwara Bhai Joga Singh and Gurdwara Bhai Beeba Singh were constructed in the city by Hari Singh Nalwa to accommodate the influx of Sikh immigrants from the Punjab.[31] While the city's Sikh population drastically declined after the partition of India, Peshawar's Sikh community has re-established itself, bolstered by Sikh refugees and by approximately 4,000 refugees from the Tribal Areas;[32] in 2008, the largest Sikh population in Pakistan was located in Peshawar.[33] Sikhs in Peshawar self-identify as Pashtuns and speak Hindko and Pashto as their mother tongues.[34]Afghan attempts to reconquer Peshawar[edit]
An 1835 attempt to re-occupy the city by the Afghan Emir Dost Mohammad Barakzai failed when his army declined to engage in combat with the Dal Khalsa. However Barakzai's son, Wazir Akbar Khan, succeeded in regaining control of the city in the Battle of Jamrud of 1837. Following this, Peshawar was annexed by the British East India Company after the death of Maharaja Ranjit Singh in the Second Anglo-Sikh War of 1849.[citation needed]British Empire (1849–1947)[edit]
Following the defeat of the Sikh's in the Second Anglo-Sikh War in 1849, territories in the Punjab were also captured by British East India company. During the Sepoy Rebellion of 1857, the 40,000 members of the native garrison were disarmed without bloodshed;[35] the absence of brutality meant that Peshawar was not affected by the widespread devastation that was experienced throughout the rest of British India and local chieftains sided with the British after the incident.[36] British control remained confined within the city walls as vast regions of the Frontier province outside the city were claimed by the Kingdom of Afghanistan. The vast mountainous areas outside of the city were mapped out only in 1893 by Sir Mortimer Durand, foreign secretary of the British Indian government, who collaboratively demarcated the boundary of British-controlled areas with the Afghan ruler at the time, Abdur Rahman Khan.The British laid out the vast Peshawar Cantonment to the west of the city in 1868, and made the city its frontier headquarters.[28] Additionally, several projects were initiated in Peshawar, including linkage of the city by railway to the rest of British India and renovation of the Mohabbat Khan mosque that had been desecrated by the Sikhs.[21] The British also constructed Cunningham clock tower, in celebration of the Golden Jubilee of Queen Victoria, and, in 1906, constructed Victoria Hall (now home of the Peshawar Museum) in memory of Queen Victoria.[21] The British greatly contributed to the establishment of Western-style education in Peshawar with the establishment of Edwardes College and Islamia College in 1901 and 1913, respectively—these were established in addition to numerous other schools, many of which are run by the Anglican Church.[21] For better administration of the region, Peshawar and the adjoining districts were separated from the Punjab Province in 1901.[37]Peshawar emerged as a centre for both Hindko and Pashtun intellectuals. Hindko speakers, also referred to as Khaarian ("city dwellers" in Pashto), were responsible for the dominant culture for most of the time that Peshawar was under British rule.[38] Whereas before it was the Pashtuns and Mughals who beautified and brought culture to the region, until the Sikhs brought the city to shambles and deterioration.Peshawar was the scene of a non-violent resistance movement that was led by Ghaffar Khan, a disciple of Mohandas Gandhi. In April 1930, Khan led a large group of locals, in a peaceful protest in Qissa Khawani Bazaar, against discriminatory laws that had been enacted by the British rulers — hundreds were killed when British horses opened fire on the demonstrators.[39]Post-independence history[edit]
After the Soviet occupation of Afghanistan in 1979 Peshawar served as a political centre for anti-Soviet Mujahideen, and was surrounded by huge camps of Afghan refugees. Many of the refugees remained there through the civil war which broke out after the Soviets were defeated in 1989, the rule of the Taliban, and the invasion by allied forces in late 2001. Peshawar would replace Kabul and Qandahar as the centre of Pakhtun cultural development during this tumultuous period. Additionally, Peshawar managed to assimilate many of the Pakhtun Afghan refugees with relative ease, while many other Afghan refugees remained in camps awaiting a possible return to Afghanistan.Peshawar continues to be a city that links Pakistan to Afghanistan and has emerged as an important regional city in Pakistan and remains a focal point for Pakhtun culture.See also[edit]
Notes[edit]
References[edit]
- ^ ab Samad, Rafi U. (2011). The Grandeur of Gandhara: The Ancient Buddhist Civilization of the Swat, Peshawar, Kabul and Indus Valleys. Algora Publishing. ISBN 9780875868592.
- ^ Behrendt, Kurt; Brancaccio, Pia (2011-11-01). Gandharan Buddhism: Archaeology, Art, and Texts. UBC Press. ISBN 9780774841283.
- ^ Encyclopædia Britannica: Gandhara
- ^ Analecta Orientalia Posthumous Writings and Selected Minor Workds. Brill Archive.
- ^ "NWFP in search of a name". pakhtunkhwa.com. Archived from the original on 31 January 2016. Retrieved 24 January 2016.
- ^ Journal of the Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland. Royal Asiatic Society of Great Britain & Ireland. 1834. pp. 114–. Retrieved 13 December 2012.
- ^ Pearce, Ian (May 2002). "The Bakhshali manuscript". The MacTutor History of Mathematics archive. Retrieved 24 July 2007.
- ^ "A vast hoard of coins, with a mixture of Greek profiles and Indian symbols, along with interesting sculptures and some monumental remains from Taxila, Sirkap and Sirsukh, point to a rich fusion of Indian and Hellenistic influences", India, the Ancient Past, Burjor Avari, p.130
- ^ Ghose, Sanujit (2011). "Cultural links between India and the Greco-Roman world"Archived August 6, 2014, at the Wayback Machine. Ancient History Encyclopedia.
- ^ "When the Greeks of Bactria and India lost their kingdom they were not all killed, nor did they return to Greece. They merged with the people of the area and worked for the new masters; contributing considerably to the culture and civilization in southern and central Asia." Narain, "The Indo-Greeks" 2003, p.278
- ^ "Pushpapura to Peshawar". The Khyber Watch. Archived from the original on 13 July 2011. Retrieved 25 November 2009.
- ^ Huu Phuoc Le (2010). Buddhist Architecture. Grafikol. pp. 180–. ISBN 978-0-9844043-0-8.
- ^ Rai Govind Chandra (1 January 1979). Indo-Greek Jewellery. Abhinav Publications. pp. 82–. ISBN 978-81-7017-088-4. Retrieved 13 December 2012.
- ^ "Shahi Family". Encyclopædia Britannica. 2006. Encyclopædia Britannica. Retrieved 2 January 2016.
- ^ Sehrai, Fidaullah (1979). Hund: The Forgotten City of Gandhara, p. 2. Peshawar Museum Publications New Series, Peshawar.
- ^ The Shahi Afghanistan and Punjab, 1973, pp 1, 45–46, 48, 80, Dr D. B. Pandey; The Úakas in India and Their Impact on Indian Life and Culture, 1976, p 80, Vishwa Mitra Mohan – Indo-Scythians; Country, Culture and Political life in early and medieval India, 2004, p 34, Daud Ali.
- ^ Journal of the Royal Asiatic Society, 1954, pp 112 ff; The Shahis of Afghanistan and Punjab, 1973, p 46, Dr D. B. Pandey; The Úakas in India and Their Impact on Indian Life and Culture, 1976, p 80, Vishwa Mitra Mohan – Indo-Scythians.
- ^ Keay 2000, p. 203: The Hindu Shahis, and in the late ninth century great was [their fame] ... in 870 Kabul itself was captured [lost] ... But in the Panjab they consolidated their kingdom and established a new capital first at Hund.
- ^ ab c d e P. M. Holt, Ann K. S. Lambton, Bernard Lewis, eds. (1977), The Cambridge history of Islam, Cambridge University Press, p. 3, ISBN 0-521-29137-2,
... Jaypala of Waihind saw danger in the consolidation of the kingdom of Ghazna and decided to destroy it. He, therefore, invaded Ghazna, but was defeated ...
- ^ ab c d e "Ameer Nasir-ood-deen Subooktugeen". Ferishta, History of the Rise of Mohammedan Power in India, Volume 1: Section 15. Packard Humanities Institute. Archived from the original on 29 October 2013. Retrieved 30 December 2012.
- ^ ab c d e Asghar Javed (1999–2004). "History of Peshawar". National Fund for Cultural Heritage. National Fund for Cultural Heritage. Retrieved 13 December 2012.
- ^ Gazetteer of the Attock District, 1930, Part 1. Sang-e-Meel Publications. 1932. Retrieved 21 September 2017.
- ^ Gazetteer of the Peshawar District 1897–98
- ^ ab Caroe, Olaf (1957) The Pathans.
- ^ Conflict and Conquest in the Islamic World: A Historical Encyclopedia, p. 43, at Google Books
- ^ Third Battle of Panipat by Abhas Verma ISBN 9788180903397 Bharatiya Kala Prakashan
- ^ "A Concise History of Afghanistan in 25 Volumes, Volume 14". Retrieved 29 December2014.
- ^ ab Schofield, Victoria, "Afghan Frontier: Feuding and Fighting in Central Asia", London: Tauris Parke Paperbacks (2003), page 47
- ^ Shah Hanifi (11 February 2011). Connecting Histories in Afghanistan: Market Relations and State Formation on a Colonial Frontier. Stanford University Press. ISBN 978-0-8047-7777-3. Retrieved 13 December 2012.
Timur Shah transferred the Durrani capital from Qandahar during the period of 1775 and 1776. Kabul and Peshawar then shared time as the dual capital cities of Durrani, the former during the summer and the later during the winter season.
- ^ Keay, John (1996). Explorers of the Western Himalayas: 1820–1895. London: John Murray. p. 41. ISBN 0-7195-5576-0.
- ^ Iqbal Qaiser (2012). "Gurudwara Bhai Joga Singh at Peshawar". All About Sikhs – your Gateway to Sikhism. Gateway to Sikhism. Retrieved 13 December 2012.
- ^ M Zulqernain (10 February 2012). "Historic Gurdwara in Peshawar to Reopen for Worship". Outlook India.com. The Outlook Group. Archived from the original on 25 April 2013. Retrieved 13 December 2012.
- ^ Rania Abouzeid (22 November 2010). "Pakistan: The Embattled Sikhs in Taliban Territory". Time World. Time Inc. Retrieved 13 December 2012.
- ^ "Archived copy". Archived from the original on 2013-04-11. Retrieved 2014-08-17.
- ^ John Pike (2000–2012). "Peshawar Cantonment". GlobalSecurity.org. GlobalSecurity.org. Retrieved 13 December 2012.
- ^ Charles Allen, Soldier Sahibs, p.276
- ^ Changes in the Socio-economic Structures in Rural North-West Pakistan By Mohammad Asif Khan "Archived copy". Archived from the original on 2016-04-14. Retrieved 2015-01-30. Peshawar was separated from Punjab Province in 1901
- ^ The Frontier Town of Peshawar. A Brief History by Sayed Amjad Hussain.
- ^ APP (24 April 2008). "PESHAWAR: Qissa Khwani martyrs remembered". DAWN The Internet Edition. DAWN Media Group. Retrieved 13 December 2012.
Bibliography[edit this history created ans Riten By C studios
Comments
Post a Comment